وہ بڑی پر کشش تھی۔
بڑی نفیس تھی.
بچوں والا ذہن تھا اسکا
جب بھی کوئی شرارت کرتی
میں غُصّہ کرتا آکر لپٹ جاتی۔
بار بار میرے پاس بیٹھ کر بالوں
پر ہاتھ پھیر نے کہ لیے بلا وجہ تنگ کرنے آجاتی۔
مجھے بھی بڑا لگاؤ تھا اس سے۔
جب بھی میں فارغ ہوتا۔
وہ بالوں پر کنگھی پھیر وانے آجاتی ۔
بال بنواتی سر پر تیل لگواتی۔
میں جب گھر پر نہیں ہوتا۔
تو بغیر کسی گلے شکوے کے۔
واپسی پر بس آکر پاس بیٹھتی۔
ایسا لگتا تھا کہ وہ صبح صادق کو دعائیں
کرتی تھی کہ میں اسکو چھوڑ کر کہیں نہ جاؤں اگر چلا جاتا تو
سورج غروب ہونے تک میرا انتظار کرتی تھی۔
میرے ہاتھ کہ علاوہ پسند نہیں تھا
کسی اور کہ ہاتھ سے کھانا اسکو۔
وہ اتنی عمر دراز بھی نہیں تھی۔
بال چال ڈھال کائنات کہ انیک
رنگ تھے اسکے ہر ایک انداز میں۔
لوگوں کو اس سے محبت ذرا کم تھی۔
وہ حسین تھی آتش تھی۔
سنگیت تھی مہک تا گلاب تھی
آواز اسکی لبِ لباب تھی۔
اندھیرے میں وہ روشنی تھی
جگنوں کے محلے کی سردار تھی
بڑی تشنگی تھی اس میں۔
روح کی راحت تھی۔
بڑے نخرے والی تھی۔۔۔
آج کل اکیلا سا ہوگیا ہوں میں۔
سارادن اس کہ بارے میں سوچتا رہتا ہوں میں۔
اب تو گھر پر انتظار کرنے والا بھی نہیں۔
بار بار پاس آکر بیٹھنے والا بھی نہیں۔
اب تو اسکو یاد کرتا ہوں۔
بے خیالی میں ہاتھ پھیرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
پھر ہوش سنبھال لیتا ہوں۔
اب تو اسکی یادیں ہی ہیں جن سے بات کرتا ہوں۔
دوسرے اسکو منہوس کہتے تھے۔ لیکن جیسی بھی تھی میری دوست تھی۔
میری مرحومہ دوست نازو عرف کالی بلی۔۔۔۔!